نازش ہماقاسمی
تاریخ میں اس طرح کے بے شمار واقعات موجود ہیں کہ کسی ایک مظلوم کی آہ اور کسی ایک عورت کی کراہ سے بڑی بڑی سلطنتیں خاک میں مل گئیں۔۔۔ ظالم وجابر حکمرانوں کی ممی شدہ لاشیں عبرت کا سامان بن گئیں۔۔۔ ہزاروں سال تک انسانی دنیا پر حکمرانی کرنے والوں کے نام و نشان مٹ گئے ۔۔۔ انسانی کھوپڑیوں کے مینار بنانے والے نیست ونابود ہوگئے۔۔۔ آج ان کا تذکرہ صرف تاریخ کے بوسیدہ و دیمک زدہ ورق میں ہی لپٹا ہوا موجود ہے اور بعد میں آنے والی نسلوں نے ہمیشہ ان مظلوموں کی دادرسی کرنے کی کوشش کی ہے ۔۔۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جس طرح انسان پر جنون اور پاگل پن کا دورہ پڑتا ہے ،بعینہ اسی طرح کچھ لوگوں پر ظلم و ستم ڈھانے کا دورہ پڑتا ہے اور یہ دورہ کوئی ایک مرتبہ یا دو مرتبہ نہیں بلکہ تاریخ انسانی میں ہزاروں ایسے واقعات موجود ہیں جب کسی ایک شخص یا ایک گروہ، ایک قبیلہ یا ایک پوری سوسائٹی پر یہ دورہ پڑا ہے،پھر یہ دورہ کبھی کبھی اتنا شدید ہوتا ہے کہ اس سے متاثر شخص کیلئے دنیا کی تمام رعنائیاں بے معنی ہوجاتی ہیں،موسیقی و نغمہ میں اسے وہ تلذذ میسر نہیں ہوتا،جو نوعِ انسانی کیلئے ظلم و ستم کے نت نئے طریقے ایجاد کرکے حاصل کرتا ہے، اسے دنیاوی لذیذ کھانوں اورشرابِ ناب میں بھی وہ فرحت و سرور نصیب نہیں ہوتا ،جو مظلوموں کا خون پی کر محسوس ہوتا ہے ۔ آج کل ہمارے ملک عزیز ہندوستان میں کچھ اس قسم کی وبا پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے، جس سے دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک میں عوام کے اندر خوف و دہشت کا ماحول پیدا ہوچکا ہے، اور اس طرح کے واقعات میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے، دادری کے سانحہ سے جہاں ہندوستانی جمہوریت پر بدنما داغ لگاہے، وہیں سیکولر ازم کے پاسداران کے لیے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے، دادری میں محض افواہ کی بنیاد پر انسانی لباس میں ملبوس بھیڑیوں نے ایک کمزور اور نہتے انسان کو موت کی آغوش میں سلادیا ، اور اس بھیڑ کو اکٹھا کرنے کیلئے مندر جیسی عبادت گاہ کا سہارا لیا گیا، گویاجہاں امن وآشتی کے گیت گائے جاتے ہیں، وہاں سے نفرت کی آندھی اٹھائی گئی، جس مندر سے رام کے متوالے رام کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان ہوتے ہیں، آج اسی مندر سے رام کے چاہنے والے ہندوستان کو جلانے کی تیاری میں ہیں ۔
ہندوستانی جمہوریت کو مزید خفت اس وقت اٹھانی پڑی جب ممبئی میں سدھیندر کلکرنی کے چہرے پر شیوسینا کے کارکنوں نے کالک پوت دی، موصوف سابق پاکستانی وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کی کتاب کے اجراکی تقریب کیلئے تشریف لے جارہے تھے،بلکہ وہی اس پروگرام کے آرگنائزرتھے، کلکرنی صاحب بی جے پی کے نمایاں کارکنوں میں سے ہیں، اٹل بہاری واجپئی کے دور حکومت میں اٹل بہاری واجپئی اور لال کرشن اڈوانی کو تقریریں لکھ کر دینے والے یہی وہ شخص ہیں، جن کی صلاحیت کے بل بوتے پر سابق وزیراعظم اور وزیر داخلہ نے خوب واہ واہی بٹوری تھی، قصوری کی کتاب کی تقریبِ اجرا میں سدھیندر کلکرنی کا قصور اتنا تھا کہ وہ پاک بھارت امن کے خواہاں تھے لیکن امن کے دشمنوں نے ان کے چہرے پر کالک پوت کر ان کے چہرے کو مزید نکھار دیا ہے، حالانکہ کالک سے چہرے بدنما ہوجاتے ہیں، لیکن سدھیندر پر جو کالک فرقہ پرستوں کی طرف سے پوتی گئی اس سے ان کا چہرہ مزید نکھر گیا، ان کی جرأت کو سلام پیش کیے جانے لگے، ایک طبقہ ہندوستان میں ایسا ہے
جوہرجمہوریت مخالف تحریک کے لیے اُٹھ کھڑا ہوتا ہے، برادران وطن میں ایسے سپوت موجود ہیں جو حکومت وقت کی غلط کاریوں پر پردہ پوشی کے بجائے ان پر اپنے غصے کا اظہار کرتے ہیں، خواہ کانگریس کی حکومت رہی ہو یا بی جے پی کی موجودہ حکومت انہوں نے ہمیشہ اور ہمہ دم ان فرقہ پرستوں کے خلاف ا پنی آواز اُٹھائی ہیں، سدھیندر کلکرنی پر کالک پوتنے والے پراوردادری سانحہ میں ایک نہتے انسان کو شہید کرنے والے پر جہاں پوری دنیا میں احتجاج برپا ہے، وہیں ہندوستانی حکومت اتناسب کچھ ہو جانے کے بعد بھی ان خونی بھیڑیوں پر نکیل کسنے میں ناکام ہے۔ کلکرنی پر سیاہی پھینکنے والوں کو اعزاز واکرام سے نوازا جارہا ہے کہ انہوں نے عین جمہوریت کی بقاء کے لیے اور وطن پرستی کے جذبے سے سرشار ہوکر سدھیندر کے چہرے کوبدنما بنایا ہے۔ انہیں ماتو شری میں بلا کر اعزاز و اکرام اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے والے سن لیں کہ بھلے ہی ہندوستان کی موجودہ حکومت ان کے اس امر قبیح پر لگام ونکیل لگانے سے گریز کررہی ہے ؛ لیکن فرقہ پرستی کا یہ ننگا ناچ زیادہ دن تک جاری نہیں رہ سکے گا۔ وطن عزیز کے سیکولر طبقے بیدار ہوچکے ہیں اور موجودہ حکومت کے اس دوہرے رویہ پر اپنی ناراضگی کا اظہار بھی کررہے ہیں، احتجاج کی صورت میں،ادبا اپنے ایوارڈ واپسی کی صورت میں اوراپنے غم وغصے کے اظہار کی صورت میں، تم لاکھ گھر واپسی کا نعرہ لگاؤ تمہاری گھر واپسی دھری کی دھری رہ جائے گی، تم لاکھ ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کی تگ ودو کرو، نیپال کی طرح تمہیں منہ کی کھانی پڑے گی، کیوں کہ ہندوستان کی موجودہ حکومت کی یکطرفہ کارروائی اور فرقہ پرستی کے خلاف مسلسل خاموشی کی بنا پر اب ہندوستان کا دانشور طبقہ ببانگ دہل میدان میں آچکا ہے اور بہت سارے مصنفین نے احتجاجاً اپنے ایوارڈ لوٹا دئے ہیں، قلمکاروں کا یہ احتجاج بہت بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے ، کیونکہ کہ قلم کی طاقت کا اندازہ ہر دور میں کیا گیا ہے ، ہر زمانہ میں قلم نے مظلومین کی دادرسی کی ہے اور ظالم کو ظالم کہہ کر اپنے قلم کی سیاہی سے ظالم کو روسیاہ کیا ہے، یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ قلم کے جیالے جب کسی ظلم کے خلاف میدان میں اترے ہیں تو ہمیشہ کامیابی نے ان کی قدم بوسی کی ہے، قلمکاروں کی طرف سے اٹھایا گیا یہ قدم اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ آج بھی اس ملک عزیز ہندوستان کے عوام اور خواص محبت و شفقت اور بھائی چارگی کے دلدادہ ہیں، گنگا جمنی تہذیب کے اس چمن کے پھولوں کو چند خاردار جھاڑیاں برباد نہیں کرسکتیں، ابوالکلام آزادو مہاتما گاندھی ، شہید بھگت سنگھ واشفاق اللہ خان، ٹیپو شہید و منگل پانڈے، مدنی و جواہر ، رانی لکشمی بائی و بیگم زینت محل کا یہ دیش کل بھی پوری دنیا میں اپنے سیکولر مزاج کیلئے نمونہ تھا اور آج بھی اس کے متوالے سیکولرازم اور جمہوریت کی بقا کی خاطر اپنا سب کچھ لٹانے کیلئے تیار ہیں؛ لیکن اگر موجودہ حکومت اسی طرح خاموش تماشائی بنی رہی،اقلیتوں پر ظلم کرنے والوں پر لگام نہیں کسی گئی تواخلاق شہید کے خون کی سرخی اور سدھیندر پر پھینکی گئی سیاہی دونوں ضم ہوکر جونقشہ پیش کریں گی وہ موجودہ حکومت کے خاتمے کا پیش خیمہ بن سکتی ہے، اگر اسی طرح امن کے خرمن پر فرقہ وارانہ برق باریاں ہوتی رہیں اور حکومت نے قابوپانے کی جدوجہدنہیں کی، تو عوام اپنے گھروں سے نکل کر سڑکوں پر آجائیں گے اورجس طرح عوام نے انہیں اقتدارکی مسندسونپی ہے،اسی طرح وہ اسے چھیننے کی طاقت و قوت بھی رکھتے ہیں۔